پاکستانی ٹی ٹوئنٹی ٹیم’’روانڈا‘‘ کیسے بنی؟

اگر میں یہ کہوں کہ 2024 کے دوران ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستانی ٹیم روانڈا کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے تو شاید آپ اسے مذاق سمجھیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔

ماضی میں فتوحات کے ریکارڈز بنانے والے گرین شرٹس نے رواں برس سب سے زیادہ 16 ناکامیوں کا سامنا کیا،افریقہ کی ایک ’’بے بی ٹیم‘‘ روانڈا کو بھی اتنی ہی ناکامیاں ملی ہیں، یہ ہمارے لیے شرمندگی کی واحد بات نہیں بلکہ اس سے قبل ورلڈکپ میں ہم امریکا تک سے ہار گئے تھے،دیگر کئی چھوٹی ٹیموں نے بھی ہمیں شکست دی ہے۔ 

کسی بڑے حریف سے کوئی اہم میچ جیتے ہمیں 2 سال ہونے کو ہیں، ماضی میں نمبر ون رہنے والی پاکستانی ٹیم اب رینکنگ میں ساتویں درجے پر پہنچ چکی،اس کے ذمہ دار خود کھلاڑی ہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو جدید تقاضوں سے ڈھالنے کے بجائے ذاتی کارکردگی کو ترجیح دی۔

ان کی اپنی رینکنگ اوپر اور ٹیم نیچے جاتی رہی، خود کو ناگزیر ثابت کرتے ہوئے انھوں نے ٹیم کو کسی ذاتی جاگیر کی طرح چلایا،برسوں نئے ٹیلنٹ کوسامنے نہیں آنے دیا، پھر جب شکستیں ملنے لگیں تو خود بھی رینکنگ میں نیچے آ گئے۔

پی سی بی حکام بھی پلیئرز پاور کے سامنے بے بس رہے جس سے بعض کھلاڑی خود کو کھیل سے بھی بڑا سمجھنے لگے، خیر نئی انتظامیہ نے اس سلسلے کو روکا ضرور مگر تب تک کافی دیر ہو چکی تھی اور اب اس مشکل دور سے باہر نکلنے میں بڑا وقت لگے گا، کسی سابق کرکٹر کیلیے سب سے آسان کام ٹی وی یا سوشل میڈیا پر جا کر تنقید کرنا ہوتاہے، اس کے انھیں پیسے بھی مل جاتے ہیں، عاقب جاوید بھی یہی کرتے رہے۔ 

لاہور قلندرز کی انتظامیہ کئی بار ان کی وجہ سے پی سی بی کے زیرعتاب آئی، انسان کوئی عہدہ پانے کے بعد ماضی کو بھول جاتا ہے، عاقب کے ساتھ بھی یہی ہوا وہ اپنے ہی بیانات فراموش کر بیٹھے،انھیں اختیار ملا تو وہی کام کرنے لگے جس پر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے،انھوں نے سلیکٹر ہوتے ہوئے ہیڈ کوچ کی ذمہ داری قبول کر لی۔ 

ایسا کرنے پر وہ ماضی میں مصباح الحق کا جینا دوبھر کر چکے تھے،برسوں بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے، جب خود اختیار پایا تو انہی کو میدان میں بھیج دیا، پھر دونوں کی روایتی سست بیٹنگ اور میڈیا کی تنقید پر جنوبی افریقہ سے اگلے میچ میں صائم ایوب کو رضوان کے ساتھ اوپننگ کیلیے بھیجا، یہ مناسب فیصلہ تھا لیکن اسے عاقب کو یاد دلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ہم نے پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کر دیا تھا کہ جنوبی افریقہ میں ٹیم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اب ایسا ہی ہو رہا ہے، جب کوئی حریف ٹیم اسٹارز کو آرام کرا دے تو ہم جیت جاتے ہیں جیسے ہی مضبوط ترین حریف سے مقابلہ ہو پھر شکست ہاتھ آتی ہے۔ 

اگر مسلسل ناکامیوں کے شکار عثمان خان کو کوئی اور سلیکٹر اتنے مواقع دیتا تو عاقب اسے نہیں چھوڑتے مگر خود وہی غلطی دہرائے جا رہے ہیں، ٹھیک ہے وہ یو اے ای کو چھوڑ کر پاکستان آئے مگر اس میں ان کا اپنا ہی فائدہ تھا، اب اس ’’احسان‘‘ کے عوض انھیں اور کتنے عرصے بغیر پرفارم کیے مواقع دیے جائیں گے۔

عاقب سابق پیسر رہے ہیں، ان کی موجودگی میں بولنگ اٹیک کا 206 رنز کا دفاع نہ کر پانا لمحہ فکریہ ہے، غیرملکی کوچز کے تجربے سے پی سی بی کا دل بھر چکا، پہلے گیری کرسٹن اور اب جیسن گلیسپی بھی مستعفی ہو گئے۔

میں نے چند ماہ قبل ہی پی سی ہوٹل میں ان کے ساتھ لنچ کیا تھا جہاں وہ اپنے ماضی کے قصے بھی سناتے ہوئے بڑے دعوے کر رہے تھے کہ ایسا کر دوں گا ویسا کر دوں گا مگر خود ہی فارغ ہو گئے، یہی غیرملکی کوچز اپنے ممالک یا بھارت میں کوئی ذمہ داری سنبھالیں تو جو کہا جائے وہی کرتے ہیں پاکستان آ کر مطالبات کی لمبی فہرست تھماتے رہتے ہیں، اسے نائب کوچ بناؤ،مجھے سلیکٹر بناؤ، میچ کے سوا پاکستان نہیں آؤں گا وغیرہ وغیرہ۔

 ایسا نہ ہو تو پھر مستعفی ہونے کی دھمکی دینے لگتے ہیں، محسن نقوی نے پلیئرز پاور کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا،وہ کوچز کی بھی بلیک میلنگ میں نہیں آئے جس پر وہ جاب چھوڑ گئے، حالانکہ انھیں پاکستان اپنی بساط سے بڑھ کر معاوضہ دے رہا تھا، بطور پروفیشنل ان سے جو کہا جائے وہی کرنا چاہیے تھا۔ 

خیر اب عاقب جاوید کی لاٹری نکل آئی ہے لیکن ایسا کب تک چلے گا یہ دیکھنا ہوگا، انھوں نے انگلینڈ کیخلاف سیریز میں پچز کی تیاری اور پلیئرز کے انتخاب میں اچھے فیصلے کیے جو چل بھی گئے لیکن پاکستانیوں کی یادداشت بڑی خراب ہے، اگر ناکامیاں زیادہ ہوں تو جلدی بھول جاتے ہیں اور گھر بھیجنے کے مطالبے کرنے لگتے ہیں۔

پی سی بی میں عاطف رانا یا ثمین رانا تو موجود نہیں جنھوں نے لاہور قلندرز کی مسلسل ناکامیوں کے باوجود انھیں برسوں نہیں ہٹایا تھا،اس لیے عاقب پر اب ٹیم کی عمدہ کارکردگی کیلیے شدید دباؤ ہوگا، محسن نقوی نے چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی جنگ فرنٹ فٹ پر آکر عمدگی سے لڑی، اب انھیں کرکٹ ٹیم کے معاملات کو بھی دیکھنا چاہیے۔

بدقسمتی سے انھیں بورڈ میں اچھے افسران کی کمی کا سامنا ہے، حالیہ دنوں میں کئی آفیشلز ملازمت چھوڑ بھی گئے ہیں،عثمان واہلہ اب بھی خوب مزے میں ہیں، چند روز قبل انھیں ملازمت سے نکالنے کی باتیں ہو رہی تھیں اب تنخواہ میں اضافہ کر دیا گیا، سلمان نصیر کہنے کو سی او او نہیں رہے لیکن آئی سی سی سے مذاکرات وہی کرتے رہے، ان کی بھی سیلری پی ایس ایل کا سی ای او بننے سے بڑھ چکی۔

اب اگر سلمان کو ہی یہ کام کرنے ہیں تو سمیر سید کو لانے کا کیا فائدہ؟ سنا ہے وہ اچھے شریف انسان ہیں لیکن اس کے ساتھ کرکٹ کی نالج ہونا ضروری ہے،سلمان نے وکیل سے سی او او بننے تک تمام چیزیں سیکھ لیں اسی لیے آج بورڈ کے لیے ناگزیر ہیں سمیر کو بھی جلد ایسا کرنا پڑے گا۔ 

خیر لگتا یہی ہے کہ محسن نقوی کو ہی تمام معاملات ٹھیک کرنے ہوں گے، اب تک انھوں نے بہترین انداز میں فرائض نبھائے ہیں،خاص طور پر چیمپئنز ٹرافی کا معاملہ سنبھالنے کا کریڈٹ محسن نقوی کو ہی جاتا ہے،وہ ٹیم کے معاملات بھی ٹھیک کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن دیگر پی سی بی آفیشلز کو بھی ان کا ساتھ دینا ہوگا،ہر کام کپتان ہی کرے گا تو دیگر کا کیا فائدہ ہے۔