پاکستانی ٹیم اپنے دورہ زمبابوے میں پہلا ون ڈے ہار گئی تھی، آج وہ آخری ٹی 20 میچ ہار گئی، مگر نہ صرف دونوں سیریز جیت گئی بلکہ کئی اعتبار سے ایک نئی پاکستانی کرکٹ ٹیم سامنے آئی ہے۔
یہ ایسی شروعات ہوئی ہے، مستقل مزاجی رہی تو امکان ہے کہ پاکستانی ٹیم دنیائے کرکٹ میں ایک حقیقی چیمپیئن ٹیم بن کر خود کو منوا لے گی۔
ویسے توآخری ٹی 20 بھی کم سکور کرنے کے باوجود جیتا جا سکتا تھا، اگر محمد حسنین نئی گیند سے بہت کمزور اور بری بولنگ نہ کراتے اورکپتان سلمان آغا ایک مزید سپنر استعمال کر لیتے۔
قاسم اکرم کی صورت میں ایک اچھا سپنر موجود تھا جس کے پاس سپیڈ ویری ایشن موجود ہے، سلمان آغا نے نجانے ان سے ایک اوور بھی نہیں کرایا۔
حسنین نے میچ کے تیسرے اوور میں چار چوکے کھا کر 19 رنز دیے۔ ایک لو سکورنگ میچ میں اتنا مہنگا اوور کرانا تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ یہ توبعد میں سپنرز سفیان مقیم اور عرفات منہاس نے اچھی بولنگ کی اور عباس آفریدی نے اہم مواقع پر وکٹیں لے کر میچ آخری اوور تک لے گیا، ورنہ حسنین کی بولنگ کے بعد میچ تین چار اوورز پہلے ختم ہوتا لگ رہا تھا۔
اس میچ اور پوری سیریز کی دوتین باتیں بہت اہم اور قابل ذکر ہیں۔
پلیئر پاورز کا خاتمہ
پلیئر پاورز کے خاتمے کا آغاز انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ہوگیا تھا جب بابراعظم، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو آخری دو ٹیسٹ میچز سے ڈراپ کر کے کامران غلام اور ایک طرح سے کرکٹ سے آوٹ ہوجانے والے سپنرز نعمان اور ساجد خان کو کھلایا گیا۔
پچھلے پانچ سال کی پاکستانی کرکٹ میں ایسا ہونا ناممکن تھا۔ بابراعظم، شاہین آفریدی، نسیم شاہ وغیرہ کوآؤٹ آف فارم ہونے کے باوجود ڈراپ کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
عاقب جاوید نے بطور سلیکٹر ایسا کر دکھایا۔ خوش قسمتی سے نتائج اچھے نکلے۔ کامران غلام نے سینچری بنا دی ورنہ اگر کامران ناکام ہوتا تو بابر اعظم فینز نے کرکٹ بورڈ کی دھجیاں اڑا دینا تھیں۔ اسی طرح نعمان اور ساجد نے غیر معمولی کارکردگی دکھا کر اپنی سلیکشن درست ثابت کر دی۔
فخر زمان نے بابر کو ڈراپ کرنے پر تنقیدی ٹوئیٹ کیا تو کرکٹ بورڈ نے اسے نوٹس جاری کر دیا، نیا سالانہ کانٹریکٹ نہیں دیا اور دورہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سے بھی باہر کر دیا۔
فخر زماں کی واپسی ٹرائی اینگلولر ٹورنامنٹ اور پھر چیمپینز ٹرافی میں ہوجائے گی، مگر اب ہرایک پر واضح ہوگیا کہ کوئی بھی نظم وضبط سے بالاتر نہیں اور سوشل میڈیا پر کوئی ایڈونچر کیریئر سے کھلواڑ کے برابر ہوگا۔
دورہ زمبابوے میں بھی بابراعظم، شاہین شاہ، نسیم شاہ کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس سے بھی جرات مندانہ قدم وائیٹ بال کپتان محمد رضوان کوٹی 20 سیریز میں شامل نہ کر کے اٹھایا گیا۔ ہم نے طویل عرصے سے کسی کپتان کے ساتھ ایسا ہوتا نہیں دیکھا۔
اس طرح ٹیم مینجمنٹ کو نئے کمبینیشن ٹرائی کرنے کا موقعہ مل گیا۔
نوجوان کھلاڑیوں کو بھرپور مواقع دینا
موجودہ کرکٹ مینجمنٹ کا ایک اور بڑا کام چار پانچ نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانا ہے جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھا خاصا تجربہ رکھنے والے بعض بدقسمت کھلاڑیوں کو بھی مواقع دیے گئے۔
پاکستان کی اے ٹیم شاہینز کے نام سے کھیلتی ہے، یہاں پر مسٹری سپنر سفیان مقیم پچھلے دو تین برسوں سے بہت عمدہ بولنگ کرا رہے تھے، اسی طرح کئی اور کھلاڑی بھی تواتر سے پرفارم کر رہے تھے۔ ان سب کو مواقع ملے ہیں۔
سفیان مقیم کو آسٹریلیا میں آزمایا گیا۔ زمبابوے کے خلاف ٹی20 سیریز میں سفیان مقیم کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔ سفیان لیفٹ آرم رِسٹ سپنر ہیں۔ ان کا گیند روایتی لیفٹ آرم سپنر کی طرح لیگ بریک ہونے کے ساتھ اندر کو بھی آتا ہے (گگلی کی طرح)۔ایسے کھبے بولر کو مسٹری سپنر اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی گیندوں کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
سفیان نے زمبابوین بلے بازوں کو چکرا کر رکھا دیا۔ ان کی بعض گیندیں ایسی غیر معمولی تھیں کہ دنیا کا کوئی بھی اچھا بلے باز آوٹ ہوجائے۔ وہ شارپ لیگ بریک کے ساتھ تھوڑی فلائٹ دے کر گگلی (رانگ آن) کراتے ہیں جو دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بیٹرز بالکل نہیں سمجھ پاتے۔
سفیان مقیم پاکستانی ٹیم کے لیے اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں، اگر انہیں اچھی کوچنگ سپورٹ کے ساتھ مستقل مواقع دیے گئے۔ حیرت ہے کہ سفیان مقیم جیسے سپنر کو ایک سال پہلے موقعہ کیوں نہیں دیا گیا؟ اگر بابر اعظم میں جرات مندانہ کپتان والی خوبیاں ہوتیں تو وہ انڈیا میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں سفیان مقیم، ابرار احمد جیسے مسٹری سپنرز کو استعمال کرتے۔
انہوں نے آوٹ آف فارم شاداب خان کو غیر ضروری مواقع دے کر اپنی ٹیم کا نقصان کیا۔ عاقب جاوید کو ایک اور بات پر بھی سراہنا چاہیے کہ انہوں نے سفیان مقیم کی بولنگ دیکھ کر انہیں دورہ جنوبی افریقہ کے لیے ٹی20 کے ساتھ ون ڈے سکواڈ میں بھی شامل کیا ہے۔ نوجوان سفیان کو ون ڈے میچز میں ضرور موقعہ ملنا چاہیے۔
ابرار احمد بھی مسٹری سپنر ہیں کیونکہ وہ انگلیوں سے لیگ بریک بولنگ کراتے ہیں، کرکٹ میں عموماً لیگ سپنر کلائی کی مدد سے بولنگ کرتے ہیں اس لیے انہیں رِسٹ سپنر کہا جاتا ہے۔
ابرار نے ٹیپ بولنگ سے کچھ ایسے تجربے کیے کہ اب وہ فنگرز کی مدد سے لیگ بریک اور فلپر کے ساتھ بہت عمدہ گگلی کراتے ہیں۔ ٹی20 سیریز میں ابرار کو نئی گیند دی گئی اور انہوں نے اس سے بھی متاثر کیا۔ سابق ٹیسٹ کپتان راشد لطیف نے خاص طور سے اس نئی حکمت عملی کا ذکر کیا۔
22 سالہ قاسم اکرم اچھے آف سپن آل راؤنڈر ہیں۔ 19 سالہ عرفات منہاس آرتھوڈاکس لیفٹ آرم سپن آل راؤنڈر ہیں۔ 21 سالہ جہانداد خان لیفٹ آرم میڈیم فاسٹ آل راؤنڈر ہیں۔ 25 سالہ عمیر بن یوسف ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی پرفارمنس دینے والے بلے باز ہیں، فرسٹ کلاس میں ان کی ایک ڈبل سنچری جبکہ ون ڈے میں ڈیڑھ سو پلس کی اننگ کھیل چکے۔
یہ وہ کھلاڑی ہیں جنہیں شائد اگلے تین چار سال تک موقعہ نہ ملتا اور ممکن ہے ان میں سے کوئی مایوس ہو کر کرکٹ ہی چھوڑ جاتا۔ ان تمام کو مواقع ملے ہیں اور کسی نے مایوس نہیں کیا۔ سفیان مقیم نے تو کمال کر دکھایا۔ وہ زمبابوے کے خلاف ٹی20 سیریز کے ہیرو ہیں۔ باقی بھی اچھے رہے، مزید مواقع ملتے رہے تو پالش ہو کر زیادہ بہتر پرفارمنس دیں گے۔
ڈومیسٹک پرفارم کرنے والوں کولانا
ایک اور اچھی چیز یہ لگی کہ ڈومیسٹک میں اچھا پرفارم کرنے والے بعض ایسے کھلاڑیوں کو بھی دوبارہ موقعہ ملا، جو پہلے کھیل چکے تھے اور زیادہ اچھی پرفارمنس نہ دینے پر باہر ہوگئے تھے۔ صاحبزادہ فرحان کو پہلے مواقع ملے تھے، وہ ناکام ہوئے، مگر ڈومیسٹک میں تواتر سے پرفارم کرتے رہے، اب انہیں پھر سے کھلایا گیا۔ دورہ آسٹریلیا میں وہ ناکام ہوئے، تاہم آج زمبابوے کے خلاف بھی موقعہ دیا گیا۔ کامران غلام طویل عرصے سے ڈومیسٹک کے ٹاپ پرفارمر تھے، مگر کوئی کھلا نہیں رہا تھا۔ اب انہیں ٹیسٹ کے ساتھ ون ڈے میں بھی موقعہ ملا اور کامران غلام نے دونوں فارمیٹ میں سینچری بنا کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
محمد عباس پاکستان کے معروف میڈیم فاسٹ بولر ہیں، ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی، کئی میچز جتوائے، مگر پھر انجریز کی وجہ سے سپیڈ مزید کم ہوگئی اور وہ سلو پچز پر غیر موثر ہوگئے۔ عباس نے آخری ٹیسٹ میچ تین سال پہلے کھیلا تھا اور بظاہر ان کا ٹیسٹ کیریئر ختم ہوچکا تھا۔ عباس اس دوران انگلش کاؤنٹی کھیلتے رہے، اب انہوں نے پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر خود کو منوانے کا فیصلہ کیا۔
قائداعظم ٹرافی کے میچز میں عباس نے بہت عمدہ بولنگ کی اور اب دورہ جنوبی افریقہ کے لیے عباس کو ٹیسٹ سکواڈ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
یہ ایک اور بولڈ اور درست فیصلہ ہے۔ انگلینڈ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کی سوئنگ کے لیے مددگار پچز پر عباس اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
سب سے بڑی بات کہ اب دیگر کھلاڑیوں کے سامنے بھی یہ آپشن آ گئی ہے کہ وہ ڈومسیٹک کرکٹ میں حصہ لیں، غیر معمولی کھیل پیش کریں اور قومی ٹیم میں پھر سے آجائیں۔
اس سے ڈومیسٹک کرکٹ کی اہمیت بڑھے گی۔ شاداب خان آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہیں، وہ بھی اب ڈومیسٹک ریڈ بال کرکٹ کھیل رہے ہیں تاکہ اپنی کارکردگی میں بہتری لائی جا سکے۔
آنے والا دورہ جنوبی افریقہ
زمبابوے کی سیریز ختم ہوئی، پاکستان نے اس میں نئے تجربے کیے، نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دیے۔ اچھی بات یہ کہ ان میں سے کئی کھلاڑیوں کو دورہ جنوبی افریقہ میں بھی شامل کیا گیا۔
جنوبی افریقہ کے لیے ٹیسٹ سکواڈ میں عباس کے ساتھ میر حمزہ، خرم شہزاد اور عامر جمال کے ساتھ نسیم شاہ کو بھی لیا گیا ہے۔ شاہین شاہ کو البتہ ٹیسٹ سکواڈ سے باہر رکھ کر وائٹ بال کرکٹ یعنی ٹی20 اور ون ڈے کے لیے رکھا گیا ہے۔ بابر اعظم اور رضوان بھی اب ون ڈے، ٹی 20 میچز میں شامل ہوں گے۔ یوں تجربہ کار اور نوجوان کھلاڑیوں کا اچھا امتزاج بن سکتا ہے۔
یہ البتہ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ کا دورہ خاصا مشکل ہے چونکہ وہاں تیزباؤنسی پچیں ہیں اور جنوبی افریقی ٹیم بھی اچھی فارم میں ہے۔
ٹیسٹ کے ساتھ وہ وائٹ بال کرکٹ کی بھی تگڑی ٹیم ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پاکستانی ٹیم وہاں زیادہ اچھے نتائج حاصل نہ کر سکے۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ جونئی اپروچ لائی گئی ہے، اسے برقرار رکھا جائے۔ جو پلیئرز پاور توڑی گئی، اسے دوبارہ نہ بننے دیں۔ نئے ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کو مواقع دیں۔ ڈومیسٹک پرفارمرز کو اہمیت دیں۔ نئی ٹیم مینجمنٹ کو سپورٹ کریں اور کچھ وقت دیں۔ ان شااللہ مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔