کسی ایک لمحے کی نا مانوسی کا فائدہ اٹھا کر کھیل کا دھارا بدل سکے۔
ہر پچ 10 وکٹیں پیدا کرنے والی نہیں ہوتی۔ ہر باؤنسی ٹریک پہ شارٹ پچ کارگر نہیں ہو سکتی۔ ہر بیٹنگ پچ پہ پیسرز کی چینج آف پیس رنگ نہیں بکھیر سکتی۔ اور کسی بھی وینیو پہ کوئی بھی سٹریٹیجی اس تواتر سے نہیں دہرائی جانا چاہیے کہ وہ اپنی تاثیر ہی کھو بیٹھے۔
بجا کہ پاکستانی مڈل آرڈر کو زیادہ مثبت اپروچ اپنانا چاہیے تھی، بجا کہ مڈل اوورز کی سست روی پاکستان کو ایک متوقع مجموعے سے پیچھے چھوڑ گئی، بجا کہ مڈل آرڈر کی ناتجربہ کاری جنوبی افریقی بولنگ کے سامنے تر نوالہ ٹھہری۔ مگر پھر بھی جو مجموعہ پاکستان کے ہاتھ تھا، وہ اس بولنگ اٹیک کے ہمراہ قابلِ دفاع تھا۔
صائم ایوب نے ایک بار پھر پاکستان کو اس اعتماد اور تسلسل کا صلہ دیا جو ان کے انتخاب میں برتا گیا ہے۔ جونھی وہ پچ کی رفتار سے ہم آہنگ ہوئے، جنوبی افریقی بولرز پہ عرصۂ حیات محدود ہونے لگا کہ آخر اس پچ پہ وہ کون سا ایسا کونا ڈھونڈیں جو صائم کے بلے کی یلغار سے محفوظ ہو۔
وکٹ کے اطراف کھیل میں تو صائم کئی بار اپنی مہارت کا ثبوت دے چکے ہیں، یہاں انھوں نے کور ڈرائیوز بھی ایسی خوبصورتی سے کھیلیں کہ دوسرے کنارے پہ کھڑے اس شاٹ کے مصدقہ ماہر بابر اعظم بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔
قسمت کی خوبی دیکھیے کہ انھیں سینچری تک پہنچانے کو دو مواقع تک دے ڈالے مگر وہ آخری گیند تک میدان میں رہ کر بھی اس سنگِ میل سے محروم رہ گئے۔ بہرحال جو اننگز وہ ایک مایوس کن سکور کارڈ کے لیے کھیل گئے تھے، وہ یہاں فاتح صف میں نمایاں ٹھہرنے کے حق دار تھے۔
کرکٹ کسی بھی فارمیٹ کی ہو، جو پہلو ہمیشہ فیصلہ کن ٹھہرتا ہے، وہ پچ کا مطالعہ ہے۔ جو ٹیم پچ پڑھنے میں بہتر اہلیت دکھاتی ہے، بالآخر میچ لے جاتی ہے۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
پاکستانی بولنگ کی حکمتِ عملی بھی یہ پچ پوری طرح سے پڑھ نہ پائی۔ بلے بازوں کی اس جنت پہ پیسرز کی سلو ڈلیوری موثر تو یقیناً ہونا ہی تھی مگر کس فریکوئنسی اور کس لینتھ سے اس کی تاثیر فیصلہ کن ہوتی، یہ پاکستان طے نہ کر پایا۔
فیصلہ سازی کی یہ غلطی اس تھنک ٹینک سے اسی سوچ کی بنا پہ ہوئی کہ وہ کسی بھی وینیو کی طرح یہاں بھی 10 وکٹیں لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ شاہین آفریدی و حارث رؤف کے تجربے اور عباس آفریدی و جہانداد خان کے ولولے کی بنیاد پہ یہ خیال غیر حقیقت پسندانہ بھی نہیں تھا۔
لیکن نہ تو یہ پچ 20 اوورز میں 10 وکٹیں دینے کے قابل تھی اور نہ ہی ہر ایک لینتھ سے متواتر سلو ڈیلیوریز یہاں کارگر ہو سکتی تھیں۔ ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آتی تین گیندوں کے بعد اگر چوتھی گیند اچانک 117 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہارڈ لینتھ پہ لپکتی اٹھے تو بلے باز حیرت سے خطاوار ہو بھی سکتا ہے۔
لیکن اگر ایسی تباہ کن رفتار کا حامل بولر مسلسل چار گیندیں ایسی سست روی کی نذر کر دے تو سامنے موجود بلے باز بھلے چھکے نہ لگائے گا تو اور کیا کرے گا؟ جہاں ضرورت فقط سٹمپس کے اندر ڈسپلن دکھانے کی تھی، وہاں غیر ضروری جارحیت ریضا ہینڈرکس کا کام آسان کر گئی۔
اور پھر ایک اچنبھے کی بات یہ بھی ہے کہ عین سامنے پڑا یہ نکتہ پاکستان کو کپتان در کپتان، کوچ در کوچ بھی سمجھ کیوں نہیں آ پاتا کہ نئی گیند پہ گرفت کے معاملے میں حارث رؤف کی پیس آڑے آتی ہے اور پاور پلے میں ان سے بولنگ کروانا ان کا اعتماد مجروح کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
صائم ایوب کی شاعرانہ اننگز نے ناتجربہ کار مڈل آرڈر کی کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے، مجموعے کو وہاں تک پہنچا دیا تھا جہاں سے پاکستان سیریز میں واپسی کی راہ کھوج سکتا تھا، مگر رضوان کی لگی بندھی کپتانی اور پاکستان کے سیدھے سیدھے پلان مسلسل دوسرے میچ میں پاکستان کو مہنگے پڑ گئے۔
بشکریہ بی بی سی اردو